پرانے وقتوں میں کرسی صرف دو موقعوں پر نکالی جاتی تھی. اول جب حکیم، وید، ہومیوپیتھ، پیر، فقیر اور سیانوں سے مایوس ہو کر ڈاکٹر کو گھر بلایا جائے. اس پر بیٹھ کر وہ جگہ جگہ پے اسٹیتھس کوپ لگا کر دیکھتا ہے کہ مریض اور موت کے درمیان جو خلیج حائل تھی اسے ان حضرات نے اپنی دواؤں اور تعویذ گنڈوں سے کس حد تک پر کیا ہے.
اس زمانے کا دستور تھا موسمبی یا مہین لکڑی کی پٹاری میں روئی میں رکھے ہوئے پانچ انگور آئیں یا سولہ ہیٹ پہنے ڈاکٹر آئے اور اس کے آگے آگے ہٹو بچو کرتا ہوا تیماردار خصوصی اس کا چمڑے کا بیگ اٹھائے تو اڑوس پڑوس والے جلدی جلدی کھانا کھا کر خود کو تعزیت اور کندھا دینے کے لیے تیار کر لیتے تھے، درحقیقت ڈاکٹر کو صرف اس مرحلے پر بلا کر اس کرسی پر بٹھایا جاتا تھا جب وہ صورت حال پیدا ہو جائے جس میں لوگ حضرت عیسی کو دو ہزار سال پہلے آزماتے تھے.
کرسی کے استعمال کا دوسرا آخری موقع ہمارے یہاں ختنوں پر آتا تھا جب لڑکے کو دولہا کی طرح سجا بنا اور مٹی کا کھلونا ہاتھ میں دے کر اس کرسی پر بٹھا دیا جاتا تھا اس جلادی کو دیکھ کر اچھے اچھوں کی گھگی بند جاتی تھی غریبوں میں اس مقصد کے لیے نئے مارٹ یا لمبی وضع کے کورے مٹکے کو الٹا کر کے سرخ کپڑا ڈال دیتے تھے.